4

Friday, December 20, 2013

news


  • کھسکتی ہوئی سیاسی زمین سے سماجوادی فکر مند

لکھنؤ:سپا( سماج وادی پارٹی) اپنی کھسکتی ہوئی زمین سے کافی فکر مند ہے ،وہ اس فراق میں ہے کہ کس طرح پارٹی کے وقار کو بحال کیاجائے اور پرانی طاقت کے ساتھ اپوزیشن پارٹیوں کا مقابلہ کیاجائے ۔خاص کروہ یوپی میں بی جے پی ، بی ایس پی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے بھی کافی تشویش میں ہے ،اس لئے اس نے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ ’نشست کا آغاز کر کے اس کا حل تلاش کرنے میں مصروف ہوچکی ہے ۔ ذرائع نے بتایا کہ ریاستی صدر اکھلیش یادو کی صدارت میں ایک میٹنگ ہوئی ہے جس میں لائحہ عمل تیار کیا گیا ہے کہ پارٹی کی کھوئی ہوئی مقبولیت اور طاقت کو واپس لانے کیلئے نشست کی جائے ،جس پر تمام عہدیداروں واعلیٰ لیڈران کے اتفاق رائے سے یہ میٹنگ شروع ہورہی ہے ،اس میں پارٹی کے اندر مچے گھمسان اور آپسی چپقلش کو دور کرنے کی بھی کوشش کی جائے گی ۔ساتھ ہی کار کن ناراض ہیں ان کو کسی طرح سے راضی کیاجائے اس پر بھی غور ہوگا ۔ 

Wednesday, February 13, 2013

राम कहानी


वो चांद सी सूरत नामे-खुदा,
वो उठती जवानी क्या कहिए
दिल ले गयी बातों बातों में,
ये ज़हर बयानी क्या कहिए

कुछ हंस के कटी कुछ रो के कटी,
कुछ ऐसे कटी कुछ वैसे कटी
अदा-ए-मोहब्बत क्या कहिए,
अदा-ए-जवानी क्या कहिए

उठ उठ के गिरे गिर-गिर के उठे
किस्मत ने लाखों पलटे लिए
सुख चैन नहीं था हिस्से में,
अब राम कहानी क्या कहिए

क्या पूछते हो क्या तुमसे कहें,
इक भोला सा अफसाना है
कुछ याद नहीं सब भूल गए,
ये प्यार जवानी क्या कहिए

ये दिल है कि बैठा जाता है,
आंसू हैं उमड़े आते हैं
आरिफ के अहदे-जर्रीं की,
रंगीन कहानी क्या कहिए
         - मो0 आरिफ सण्डीलवी

90 की उम्र में 15 साल की लड़की से ब्याह!


90 की उम्र में 15 साल की लड़की से ब्याह!

 सऊदी अरब में एक 90 साल के शख्स ने मोटा दहेज देकर 15 साल की एक लड़की से शादी की है। इस बेमेल शादी से देश भर में काफी नाराजगी है। मानवाधिकार कार्यकर्ताओं से लेकर सोशल मीडिया पर भी इसकी जमकर आलोचना की जा रही है।

अल अरबिया के मुताबिक, शादी के नाम पर हुए इस हादसे से सहमी लड़की ने दो दिन तक खुद को कमरे में बंद करके रखा और पति को अंदर नहीं आने दिया। इसके बाद वह अपने घरवालों के पास भाग आई। वहीं दूल्हा लगातार अपनी शादी को जायज और कानूनन सही ठहरा रहा है। उसका यह भी कहना है कि उसने लड़की से शादी करने के ऐवज में उसके यमनी पिता और सऊदी मां को 17,500 डॉलर (करीब 9.66 लाख रुपये) दहेज के रूप में दिए हैं। अब उसका कहना है कि या तो उसके ससुराली लड़की वापस करें या उसका दिया दहेज लौटाएं।

लड़की के साथ हुए इस वाकये से लोगों में उसके मां-बाप के प्रति काफी गुस्सा है और ट्विटर के जरिए उन्होंने अपनी भड़ास भी निकाली है। सऊदी नैशनल असोसिएशन फॉर ह्यूमन राइट्स की सुहैला जीन अल-अबेदीन ने प्रशासन से अपील की है कि वह दखल देकर जल्द से जल्द इस नाबालिग लड़की को बचाएं।

Friday, February 8, 2013

- रामधारी सिंह


जो अगणित लघु दीप हमारे
तुफानों में एक किनारे
जल-जलाकर बुझ गए किसी दिन
मांगा नहीं स्नेह मुंह खोल
कलम, आज उनकी जय बोल
पीकर जिनकी लाल शिखाएं
उगल रही लपट दिशाएं
जिनके सिंहनाद से सहमी
धरती रही अभी तक डोल
कलम, आज उनकी जय बोल

:ایک بزرگ درویش


ساغر سندیلوی:ایک بزرگ درویش
از قلم…………مُعِز ساغری
صوبہ اترپردیش کا تاریخی قصبہ سندیلہ جو اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ سے تقریباً پچاس کلومیٹر دور مغرب کی جانب واقع ہے ۔تمام قصبات کی طرح اپنی ایک الگ منفرد حیثیت رکھتا ہے۔تاریخ سندیلہ پر کوئی بھی شہر یا خطہ نازکرسکتاہے۔سندیلہ کی مایہ ناز و مردم خیز سرزمین سے ہر زمانے میں ایسی نابغہ روزگارو یکتائے زمانہ ہستیوں نے جنم لیا جن کے کارنامے رہتی دنیا تک صفحہ ہستی سے محونہ ہوسکیں گے۔یہاں سے بڑھ کر ایک اساتذہ،شعرا،علما،ادباء مشائخ اور کاملان فن نے علم و دانش کے ایسے چراغ روشن کئے ہیں جو آج تک روشن ہیں۔ادباء اور شعرا کے ساتھ ساتھ علما اور مشائخ کی ایک بڑی تعداد نے ہر دور میں سندیلہ کے وقار میں اضافہ کیا ہے۔
قصبہ سندیلہ کی صدر سٹرک کے مغرب کی جانب واقع محلہ اشراف ٹولہ (احمد نگری)میں واقع خانقاہ سے ملے ہوئے مکان میں معروف صوفی بزرگ حضرت الحاج سید محمد محمود عالم المعروف بہ مخدوم زادہ شاہ سید شرف الدین احمد المعروف ساغر میاں احمدی قادری ،چشتی نظامی،نیازی،سہروری،نقشبندی،مجدوی قدس اللہ سردہ سنڈیلہ کی روحانی روایت کو برقرار رکھے ہوئے تھے۔
کربلا شریف میں سید نا امام حسین ؓ کی شہادت کے بعد مدینہ منورہ شریف کے بہت سے خاندان دوسرے ملکوں میں منتقل ہوگئے تھے۔ان مٰں سیدنا امام باقر ؓ کے صاحبزادے سید نازید کا خاندان بھی عراق میں آباد ہوگیاتھا۔اور کچھ لوگ بغداد شریف کے نزدقصبہ واسط میں آباد ہوگئے تھے اور واسطی کہلائے اسی خاندان سے سید علما ء الدین واسطی اپنے ساتھ کچھ لوگوں کے ساتھ ہندوستانی تشریف لائے اور حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی ؒ کے ہاتھ پر بیعت کی حضرت نصرین الدین چراغ دہلوی ؒ نے حضرت مخدوم سید علما الدین واسطی کو شاہ ولایت بناکر سندیلہ بھیجا۔آپ کے ساتھ آئے کچھ لوگ ہردوئی ضلع کے تحصیل بلگرام میں بھی آباد ہوگئے ۔حضرت مخدوم سید علما الدین ؒ نے سندیلہ میں سب سے زیادہ کھارا پانی تلاش کرکے وہیں قیام پذیر ہوئے اور آخرش وہیں آسودہ خاک ہوئے ۔ان کا مقبرہ اور شاہی مسجد بادشاہ فیروز تغلق نے اپنے عہدکے دوران تعمیر کرائی تھی۔جو آج بھی درگاہ شریف کے نام سے مشہور ہے۔
حالانکہ مخدوم علماء الدین صاحب سے پہلے پانچویں صدی میں میرامعیز الدین پیرنورانی سندیلہ تشریف لاچکے تھے۔سید مخدوم صاحب کی ساتویں پشت بھی بند گی الشیخ الحسن میاں درگاہ شریف میں قیام ترک کرکے محلہ اشراف ٹولہ آباد کیا۔جہاں ان کے خاندان کے تمام افراد آج تک آباد رہے آپ کے خاندان کے سید نظابت حسین صاحب ارئی میں تشریف رکھتے ہیں۔اس کے بعد اسی خاندان میں سید شمس الدین صاحب،سید نجم الدین صاحب اور سید محمد احمد کو کب صاحب ہوئے۔سید شمس الدین صاحب حضرت مولانا فضل الرحمان گنج مراد آباد(ضلع انائو)کے مرید تھے۔سید نجم الدین صاحب سید تجمل حسین شاہ صاحب شاہ جہان پوری کے مرید تھے اور حضرت شاہ محمد احمد کوکب صاحب کے پیر مرشد کا نام شیخ محمد فرخ حسین شاہ صاحب ہے۔یہ سلسلہ خاندان چشت کا چشتیہ ،نظامیہ حضرت مخدوم شاہ مینا ؒ لکھنؤسے ہوتا ہواصفی پورسے سندیلہ آیا اسی خاندان مخدومیہ میں ۲۱ویں پشت میں ۲۵نومبر ۱۹۲۰ء کو محلہ اشراف ٹولہ حضرت سید شرف الدین احمد ساغر میاں پیدا ہوئے جو اسی دور کے مخدومیہ خاندان کے آخری بزرگ ہیں ۔
حضرت شرف الدین ساغر میاں نے دنیا میں آنکھ کھولتے ہی گھر کا ماحول صوفیانہ اور شاعرانہ پایا۔حضرت ساغر میاں کے والد محترم حضرت شاہ سید محمد احمد صاحب (جو آرزو لکھنوی کے شاگردتھے)تخلص کو کب سندیلوی کچھ دنوں شاعری کرنے کے بعد شاعری ترک کرکے عشق حقیقی میں محوہوگیء اور اپنی ساری زندگی عبادت میں گذاردی۔حضرت ساغر صاحب کا خاندانی سلسلہ بنوہاشم فاطمی حضرت اما م باقر علیؓ ،حضرت امام زید سے حضرت امام حسین ؑ سے حضرت امام علی کرم اللہ وجہ تک پہنچتاہے۔
حضرت ساغرمیاں صاحب نے ابتدائی تعلیم چچا کے زیر سایہ مدرسہ اسلامیہ کلکتہ میں حاصل کی ۔بعد میں دینی اور مذہبی تعلیم کے ساتھ کالج اور یونیورسٹی جوائن کرکے گریجویٹ ہوئے ۔اردو کے ساتھ فارسی ،انگریزی میں انہوںنے اپنے ہم عصرو میں امتیاز حاصل کیا۔خصوصاً فارسی ادبیات سے انہیں زیادہ دلچسپی تھی شعر گوئی ذوق ورثے میں ودیعت ہوا۔تعلیمی زندگی سے ہی آپ کو شاعری کا شوق ہوا اور شعر کہنا شروع کردیا۔گیارہ سال کی عمر میں ہی انہوںنے نظم کہنی اور سندیلہ کے نواب اعزاز رسول صاحب کی کوٹھی پر منعقد آل انڈیا مشاعرہ میں چوٹی کے شاعروں کے درمیان آپنے اپنی پہلی نظم پڑھی جس کو بہت پسند کیاگیا ۔اس مشاعرہ میں جگر مراد آبادی بھی تشریف رکھتے تھے ۔انہوںنے شرف الدین صاحب کو اپنی شاگردی میں لیا اور ان کا تخلص ساغر رکھا۔ساغر صاحب نے کم عمری میں ہی شاعری  کی دنیا میں ایک اہم مقام حاصل کرلیاتھا۔انہوںنے کئی آل انڈیا مشاعروں میں شرکت کی ۔کانپور کے حلیم ڈگری کالج کے آل انڈیا مشاعرے میں اسٹیج پڑ بیٹھے جگر مراد آبادی ،آنند نارائن ملا،عزیزلکھنوی،شیریں بھوپالی ودیگر شعراء نے ساغر صاحب کے کلام کی تعریف کی تھی ساغر صاحب نے تقریباً ۲۲سال کی عمر میں فوج کے کلکتہ ہیڈ کوارٹر کے دفتر میں ملازمت کی لیکن مزاج شاعرانہ کو پیشہ سپہ گری کا انسلاک راس نہ آیا چنانچہ ملازمت سے ترتعلق کیا۔۵؍نومبر۱۹۴۵مطابق ۲۹ذی قعدہ کو والد محترم حضرت شاہ سید محمد احمد صاحب یک پردہ فارنے کے بعد ان کے جانشین بن کر سجادہ برفروش ہوئے آپ کے والد ماجد بڑے اللہ والے اور عشق حقیقی کے سوختہ جان تھے اور کائنات کی ہر شئے سے معرف الہیٰ کا درس نمولیتے تھے ۔والد محترم کے پردہ فرمانے کے بعد آپ دنیا ترک کرکے فقیرانہ لباس اختیار کرکے حلقہ درویش میں شامل ہوگئے۔تبلیغ دین اور رشد و ہدایت کے اپنے والد محترم کے کام کو مسلسل جاری رکھا۔جو آج تک جاری ہے والد ماجدسے بے پناہ محبت اور ان کی ہدایتوں نے اپ پر اتنا گہرا اثر کیاکہ عین عالم شباب میں دنیا ترک کرکے راہ طریقت اختیار کرلی اور تصوف میں غرق ہوتے چلے گئے عبادت اور ریاضت زندگی کا مقصد بن گئی ۔۲۴گھنٹہ عبادت کے علاوہ کسی کام کے واسطہ نہ رکھا۔آپ رات کو ۱۱بجے سوتے اور ۲بجے پھر عبادت میں مصروف ہوجاتے ۔اکثراولیائے کرام کا خانقاہ میں ذکر فرمایا کرتے بنیادی طور پر وہ ایک شریف النفس معتدل مزاج بزم خواورغیر متعصب انسان گفتگو نہایت سلیس اور شگفتہ ۔غذا برائے نام تناول فرماتے۔والد ہ ،دوبھائی ،دوبہن تقسیم ہند کے وقت پاکستان ہجرت کرگئے۔لیکن آپنے اپنے والد کی مزار سے جداہونا گوارانہ کیا۔سندیلہ میں قیام فرمایااپنی تمام جائیداد مال ومتاع فقراء اور غرباء و مساکین میں تقسیم کردی اور خود کو ایک حضرہ میں قید کرکے عشق حقیقی میں مستغرق رہنے لگے۔تنہارہنے کی وجہ سے چائے کا استعمال زیادہ کیا اور کھانہ صرف ایک وقت وہ بھی برائے نام ۶۔۶ماہ کے طویل عرصہ تک روزے رکھے اگریہ کہیں کہ ہمہ وقت غریق الہی رہتے ہیں توغلط نہ ہوگا۔طویل عرصہ تک بیٹھ کر عبادت کرنے سے دونوں پیروں میں تکلیف ہوگئی تھی زیادہ چائے کا استعمال اور کم غذا کی وجہ سے پیٹ کی آتیں سوکھ جانے سے دومرتبہ پیٹ کا آپریشن بھی ہوچکا ہے۔حضرت ساغر میاں صاحب نے شادی نہیں کی اور اپنی سار ی عمر تنہائی اور عشق حقیقی میں گذار دی۔
یہ پروردگار عالم کا احسان و کرم ہے کہ اس حقیر و کم تربندے کو ان کی خدمت کا موقع عطافرمایا۔راقم کو ان کی مریدی کا شرف بھی حاصل ہے ۔عوام سے ملنے کا وقت صبح ۹بجے سے ۱۱بجے تک مقرر ہے لوگ اس وقت ان سے ملنے اور فیض حاصل کرنے کیلئے وقت کا انتظارکرتے ہیں۔حضرت ساغر صاحب کے ہندوستان میں کثیر تعداد میں مرید ین ہیں۔جو وقتاً فوقتاً دست بوسی کیلئے حاضر ہوتے ہیں۔ہندوستان اور بیرونی ملک کے مرید ،عقیدت مند آج بھی سالانہ عرس کی تقریبات میں شرکت کرنے آتے ہیں۔حضرت ساغر صاحب اپنے والد کا سالانہ عرس بڑے ہی اختشام اور شان و شوکت سے ۲۹ذی القعدہ کو کرتے ہیں ۔اسی سالانہ رس کی تقریب میں متعدد مرتبہ ریاست کے گورنر ،وزرامقامی بیرونی سیاسی لیڈران کے علاوہ معروف قوال شرکت کرتے چلے آرہے ہیںاور آج بھی یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔حضرت ساغر میاں صاحب کو صرف صوفیانہ کلام سننا ہی پسند ہے خواہ فارسی کلام ہو یا اردو۔حضرت ساغر میاں صاحب نے دومرتبہ حج بیت اللہ کا شرف حاصل کیا۔ادس کے علاوہ انہوںنے دیگر مقامی مقدسہ کی زیارت کی جس میں بغداد شریف میں ۱۴دن،بیت المقدس فلسطین میں ۴؍دن کربلا شریف میں ۱۸دن نجف اشرف میں ۴دن بیروت میں ۴دن گذارنے کے بعد دیگرتمام مقدس زیارت گاہوں پر حاضری دی۔اس کے علاوہ انہوں نے انگلینڈ میں ۱۶؍افریقہ میں۲؍اور امریکہ میں ۴عیسائیوں کو اپنے سفر کے دوران مذہب اسلام میں داخل کرایا۔آپ نے پاکستان میںکافی وقت گذارا اور تمام مقدس آستانوں پر حاضری دی اور ی اور سیکڑوں کی تعداد میں مرید کئے ساغر میاں صاحب اردو ،فارسی،انگریزی زبانوں سے واف ہیں انہوںنے شروع میں فارسی کلام کہا اور بعد میں اردو کلام کہنا شروع کیا۔آپ کے کلام میں جابجا جگر کے اسلوب کی پرچھائیاں نظر آتی ہیں۔ان کی غزلوں میںعشق کا جووالہانہ انداز ہے وہ ہماری توجہ بار بار جگر صاحب کی جانب متوجہ کراتی ہے آپ کا پیشتر کلام غزلیات پر مبنی ہے نام و نمود شہرت سے کوسوں دور رہنے کی وجہ سے کافی کلام تلف ہوگیا پھر بھی راقم نے ان کے بچے ہوئے کلام کو ایک دیوان کی شکل میں ترتیب دینا شروع کردیا ہے ۔انشاء اللہ جوجلد ہی منظر عام پر آئے گا۔ساغر صاحب سندیلہ کے بزرگ ہستیوں خصوصاً مخدوم علاء الدین صاحب کے آخری چراغ ہیں۔جو اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اورصوفیانہ ماحول کو روشن کئے ہوئے ہیں ۔پیش خدمت ہے انتخاب نمونہ کلام۔